کراچی کی داستان
کراچی کے مئیر وسیم اختر آئے دن اختیارات کی کمی اور وسائل کے نہ ہونے کا رونا روتے نظر آتے ہیں ۔ کراچی روشنیوں کے شہر سے گندگی کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے اور شہری حکومت کے پاس سوائے بہانوں کے عوام کے لیے کچھ نہیں ہے ۔ وسیم اختر کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے خیالات کچھ نیک نہیں ۔ انھوں نے چند ماہ بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات نہ کروانے کا مطالبہ بھی کردیا ہے ۔ یعنی نہ خود کام کرینگے اور نہ ہی کسی اور کو موقعہ دینگے ۔
گزشتہ چار سا ل سے شہر کراچی میں نہ کوئی فلائی اووربنا ، نہ ہی پانی کی سپلائی میں ایک فیصد اضافہ ہوا ، گلی گلی سیوریج کا گندا پانی بہتا رہا ۔ گندگی و غلاظت کے باعث ڈینگی مچھر شہریوں کو نہ صرف کاٹتا رہا بلکہ کئی اقسام کی بیماریاں بھی پھیلاتا رہا، چار سال میں شہر کراچی کی حالت اس قدر خراب ہوئی کہ شہری اپنے دیگر تمام تر مسائل بھول کر صرف ایک درخواست کرتے رہے کہ شہر کراچی میں جھاڑو دیدو اور کچرا اٹھا لو ۔
وسیم اختر صاحب سے عرض ہے کہ اگر آپ کے پاس اختیارات نہیں تھے تو آپ استعفا دے دیتے ۔ چار سال آپ نے شہری حکومت کے مزے بھی لیے اور دوسری جانب اختیارات نہ ہونے کی پیپری بھی بجاتے رہے ۔ قربان جاوُں آپ کی سادگی پر آپ اتنے معصوم ہیں کہ حکومت کرتے بھی ہیں اور نہیں بھی ۔
کبھی وفاقی حکومت کا حصہ ہوتے ہیں تو کبھی صوبائی اور کبھی دونوں حکومتوں میں سے حصہ لے لیتے ہیں اور جب کام کی باری آتی ہے تو آپ بھی فرماتے ہیں
کہ میرا یہ بھرم تھا میرے پاس تم ہو ۔
آپ عوام کو ایک بار بیوقوف بنا سکتے ہیں دو بار لیکن بار بار نہیں ۔ وقت کا انتقام سب سے بڑا انتقام ہوتا ہے کل کے تخت نشین آج کے مجرم ٹھہرتے ہیں ۔ تاریخ کا سبق ہے کہ اربابِ اقتدار کو خاک نشیں ہوتے وقت نہیں لگتا ۔ یہ کرسی عوام کی امانت ہے کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ۔