سندھ :تہذیب و تاریخ کا گہوارہ

سندھ انسانی تاریخ کی وہ بستی ہے، جہاں ہزاروں سال قدیم تہذیب کا چراغ آج بھی روشن ہے۔ ہڑپہ جیسی عظیم تہذیب کی آب یاری کرنے والا یہ علاقہ اپنے دریا اور زرخیزی کی وجہ سے ہمیشہ ہی توجہ کا محور رہا۔

جب دنیا کے دیگر خطوں میں ارتقائی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں، ہڑپا تہذہب میں ایسے قصبوں کی بنیاد رکھی جا چکی تھی، جہاں سماجی زندگی اور فنون لطیفہ، دونوں ہی منظم اور مربوط انداز میں پھل پھول رہے تھے۔ اور اس کا دائرہ فقط آج کے سندھ تک محدود نہیں تھا، موجودہ پاکستان، افغانستان کے مشرقی علاقے اور بھارت کا مغربی حصہ بھی وادی سندھ میں شمار ہوتا تھا۔ یہ خطہ بلوچستان سے اتر پردیش تک پھیلا ہوا تھا۔
سندھ ہی میں کپاس سے دھاگا اور دھاگے سے کپڑا بنانے کی شروعات ہوئی اور یوں اس خطے میں صنعت کاری کا آغاز ہوا۔ اس تہذیب کا موازنہ بلاشبہ مصری، آشوری اور سامی تہذیبوں سے کیا جاسکتا ہے۔
آنے والی صدیوں میں یہ علاقہ قدرتی آفات، سیلابوں اور آریائی یلغار کی زد پر رہا۔ آریائی قوم نے جس تہذیب کی بنیاد ڈالی، وہ سندھ سے دریائے سرسوتی اور دریائے گنگا تک پھیلی ہوئی تھی۔
سندھ کو باب الاسلام بھی کہا جاتا ہے۔ اس راستے سے دین اسلام کی ہندوستان میں آمد ہوئی، جس کی روشنی نے اس خطے کو منور کر دیا۔ 712 میں محمد بن قاسم کی فتح نے یہاں عربوں کی حکومت قائم کی۔ بعد ازاں اس پر سومرو، مغلوں اور کلہوڑا خاندانوں نے حکومت کی۔
سندھ صوفیوں کی سرزمین ہے۔ سچل سرمست، شاہ لطیف اور لعل شہباز قلندر جیسے صوفیوں کا پیغام اس کے کلچرل میں رچا بسا ہے، جس نے یہاں رواداری اور بھائی چارے کو فروغ دیا۔
ڈاک کا اولین نظام بھی دریائے سندھ ہی کے کنارے پروان چڑھا تھا، جسے بعد ازاں برطانوی دورحکومت میں منظم و مربوط کیا گیا۔
یہ علاقے 1936 تا 1947 برطانیہ کے زیر تسلط رہا۔ اسی زمانے میں اس کے موجودہ حدود اربعہ کا تعین ہوا اور کراچی اس کا مرکز ٹھہرا۔ آج یہ پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ ہے، جس کی بندرگاہ اور آثار اس کے روشن ماضی کی عکاس ہیں۔